حسین فاروق

میرا محرر سی آر او نعیم اللہ بڑا حقیقت پسند آدمی ہے۔ اکثر معاملات پر مجھ سے کھل کر اختلاف کرتا ہے۔ گاہے بگاہے مجھے کہتا ہے سر آپ آرام کیا کریں, کتنی دیر تک قوت مدافعت کے بل پر معاملات کو چلائیں گے؟ آپ کے کام اور آرام میں توازن نہیں۔ ایک خاص عمر کے بعد انسان کو ہر چیز کا خیال رکھنا چاہیے۔ مگر میں ہمیشہ ہی اس کی بات سنی ان سنی کر دیتا ہوں۔ اور کہتا ہوں کہ یہ کام میرے لئیے کچھ کام نہیں۔ ایک اور بڑا اختلاف جو اس کو مجھ سے ہے وہ ذاتی حیثیت میں سستی اور کاہلی ہے۔ وہ میری اس عادت کی وجہ سے کڑہتا رہتا ہے اور میں اس کی اس کیفیت سے بھر پور انداز میں لطف اندوز ہوتا ہوں۔

میں خود بھی جب اپنا تجزیہ کرتا ہوں تو سستی کا عنصر خاصہ غالب پایا جاتا ہے (سواۓ ان معاملات کے جن میں عزت اور خودداری کو گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو۔)۔ میری اسی عادت کی وجہ سے کتنے ہی قیمتی رشتے وقت کی بے رحم موجوں کی نظر ہو گئے۔ روز صبح اٹھ کر منصوبہ بناتا ہوں کہ آج فلاں کام کروں گا, فلاں بھی ہو جاۓ گا مگر پھر ہوتا وہی ہے دفتر, گیراج, گیراج میں براجماں منجا, دوست, کمپیوٹر اور بچوں کے ساتھ چار و ناچار کھیل کود۔ اس ضمن میں کبھی اقبال کا یہ سینہ بہ سینہ گردش کرتا قول کہ”اقبال ہمیشہ دیر سے آتا ہے” تو کبھی منیر نیازی کی یہ نظم مینارہ نور رہیں:

ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں
ضروری بات کہنی ہو کوئی وعدہ نبھانا ہو
اسے آواز دینی ہو اسے واپس بلانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
مدد کرنی ہو اس کی یار کی ڈھارس بندھانا ہو
بہت دیرینہ رستوں پر کسی سے ملنے جانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
بدلتے موسموں کی سیر میں دل کو لگانا ہو
کسی کو یاد رکھنا ہو کسی کو بھول جانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
کسی کو موت سے پہلے کسی غم سے بچانا ہو
حقیقت اور تھی کچھ اس کو جا کے یہ بتانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں۔۔۔۔

جو سوچ سب سے زیادہ مجھے اس عادت پر قابو نہیں پانے دیتی وہ یہ ہے کہ میرا تو دماغ چلتا ہے اور چلتا بھی ذرا روایات سے ہٹ کر ہے اور اس پہ طرحہ یہ کہ یاداشت بھی اپنا فریضہ غیر معمولی انداز میں سرانجام دے رہی ہے۔ اور یہ عادت الحمدللہ استاد محترم جناب زاہد نواز رندھاوا صاحب سے ورثہ میں ملی ہے۔ بڑے سے بڑے معاملہ پر انکو یہی کہتے سنا “او بہہ جا, کجھ نہیں ہوندا, کر لیندے آں, ہو جاندا اے, ایڈا توں تمن خان”۔

ابھی تھوڑی دیر قبل ایک نامعلوم نمبر سے کال موصول ہوئی۔ آئی کون ایپلیکشن پر نام جانا پہچانا آ رہا تھا۔ میں نے کال اٹینڈ کی تو آواز آئی! حسین! میں نے کہا جی سر۔ او یار یہ فلاں فلاں کام ہے اس کو ایسے کرنا ہے۔ (میں نے سوچا کہ یہ مجھے ایسے کام کیوں کہ رہے ہیں)۔ خیر وقتی طور پر میں نے جی جی سر پر اکتفاء کیا اور فون بند ہوگیا۔ میرے ساتھ ہی منجے پر متمکن ایک سیانے صاحب سے پوچھا۔ یار اس نام کے افیسر کہاں لگے ہوۓ ہیں۔ وہ بھی موج میں بیٹھا کہنے لگا سر پتہ نہیں۔ میں نے ایک ٹیلی فون آپریٹر کو کال ملائی اور پوچھا۔ بھائی یہ اس نام کے آفیسر لاہور میں کہاں تعینات ہیں؟ کہنے لگا
“سر ایس ناں دا افسر لاہور ایچ ؟ میں نے کہا جی۔ ایس ناں دا افسر لاہور ایچ, لاہور ایچ, لاہور ایچ کتھے ہو سکدا اے؟ نہیں سر میری سمجھ ایچ نہیں آوندا۔ پھر کچھ توقف کے بعد پوچھا۔ کی ناں دسیا جے سر؟ میں نے کہا ۔۔۔۔۔۔۔ایہ۔ او سر جی ایہ تے اپنے اوہ صاحب نیں۔ میں نے کہا اپنے؟ کتھے اپنے؟ او سر جی ایہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
میں نے سوچا او ہاں یار یہ تو اپنے وہی صاحب ہیں۔ اور اس کے بعد شرمندگی سے ہم دونوں کے چراغوں میں روشنی نہ رہی, فون بند کرنے میں ہی عافیت جانی اور غصہ سیانے صاحب پر نکل گیا کہ توں ایڈا جاھل ایں تینوں پتہ ہی نہیں۔ پھر نعیم اللہ کی باتیں یاد کر کے فیض صاحب کی یہ نظم ذہن میں گردش کرنے لگی۔

وہ لوگ بہت خوش قسمت تھے
جو عشق کو کام سمجھتے تھے
یا کام سے عاشقی کرتے تھے
ہم جیتے جی مصروف رہے
کچھ عشق کیا کچھ کام کیا
کام عشق کے آڑے آتا رہا
اور عشق سے کام الجھتا رہا
پھر آخر تنگ آ کر ہم نے
دونوں کو ادھورا چھوڑ دیا

Tagged in:

, ,