میں 2013 میں ایس اہچ او سرور روڈ تعینات تھا۔ وزیر اعظم نواز شرہف کے لئیے روٹ لگا ہوا تھا۔ ائیر پورٹ کے دروازے پر ائیر فورس کا ایک سنتری ڈیوٹی دے رہا تھا اور قریب ہی اس نے اپنی موٹر سائیکل کھڑی کی ہوئی تھی۔ سپیشل برانچ کے ایک ایس پی تھے جو ماتحتوں کے ساتھ ہمیشہ تلخ رویہ رکھتے تھے۔ انہوں نے اسے پولیس کا سپاہی سمجھتے ہوۓ قدرے سخت لحجے میں کہا کہ “اوۓ موٹر سائیکل سائیڈ تے کر”۔ مگر وہ نہ مانا اور بات تلخ کلامی تک پہنچ گئی۔ وہ اکیلا تھا جبکہ ڈسٹرکٹ پولیس اور سپیشل برانچ کی کافی نفری وہاں موجود تھی۔ کوئی نہ بولا بلکہ اندرونی طور پر خوش تھے۔ ایس پی صاحب نے اس کی شکائیت اس کے حکام کو کی۔ دو منٹ بعد وہ پہنچ گئے۔ مگر نہ تو وہ سپاہی ڈیوٹی سے ہٹا اور نہ ہی موٹرسائیکل۔

سپاہی اور اعتماد کا فقدان

محکمہ پولیس بڑا شومئی قسمت واقع ہوا ہے۔ 1861 سے لے کر آج تک نہ تو عوام کے دل سے اس کے لئیے نفرت نکلی اور نہ ہی محکمہ کے اندر پائی جانے والی رینک در رینک تفاوت کم ہو سکی۔ پولیس کے نظام میں سپاہی ریڑھ کی ھڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس رینک کو نکال دیں تو باقی کیا بچتا ہے۔ یہی ہماری عزت کا باعث ہوتا ہے ۔ یہی ہمیں پروٹوکول دیتا ہے, یہی ہمارے لئیے میڈیا کا کردار ادا کرتا ہے, یہی اپنے افسران کی جان بچانے کے لئیے اپنے سینے پہ گولی کھاتا ہے مگر افسر کو گزند نہیں پہنچنے دیتا۔ شہادتوں کا تناسب اس کا گواہ ہے۔ اس کی بس اتنی سی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا افسر دو بول عزت اور پیار سے بول لے۔ اسے اپنے وفاداروں کی فہرست میں شامل کر لے۔ مگر ہمیں اس کی اہمیت کا احساس دوران ریڈ اور دوران لاء اہنڈ آرڈر ہی ہوتا ہے۔ پھر جونہی حالات نارمل ہوتے ہیں سب سے زیادہ زیادتی بھی اسی رینک سے کی جاتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ میں پوری ذمہ داری سے یہ بات کہہ رہا ہوں کہ لاہور جیسے شہر کے جرائم کو محض تین چار سو سپایی اور تھانیدار ملکر بیخ کنی کرنے میں مصروف ہیں جو ایس ایچ او کے زیادہ قریب ہوتے ہیں۔ جن کی ایس ایچ او پشت پناہی کرتا ہے اور ان سے ذاتی مراسم استوار ہو جاتے ہیں۔ بقیہ تمام فورس محض آٹھ گھنٹے پورے کرتی ہے۔ اگر یہ تین چار سو لوگ پیار اور اعتماد کی وجہ سے لاہور کے جرئم کی بیخ کنی کر سکتے ہیں تو سوچیں یہی رویہ رکھنے سے بقیہ 25000 کانسٹیبل کس قدر کار آمد ہو سکتے ہیں

جب سے پی ٹی وی کا زمانہ ختم ہوا ہے ہلکے سے ایشو پر جونئیر رینک کو معطل اور سزا معمول بن چکا ہے۔ سوچ پیچھے یہی ہوتی ہے کہ 2/4 دن میں حالات ٹھیک ہوۓ تو بحال کر دیں گے۔ اس پالیسی کے دوررس نتائج یہ نکلے کہ ایشو کے سامنے سرنگوں کر کر کے اب ہماری فورس میں وہ دم خم نہیں رہا کہ کسی کے سامنے کھڑے ہو سکیں, وہ سکت نہیں رہی کہ کسی سے بات کر سکیں, وہ جزبہ نہیں رہا کہ کسی سینئیر کے لئیے قربانی دے سکیں۔ فورس سے سروس میں منتقل کرنے کی تگ و دو میں ہم آدھے تیتر اور آدھے بٹیر بن چکے ہیں۔کل کا واقعہ اس چیز کا گواہ ہے۔ اب تمام جرائم پیشہ کو علم ہے کہ پولیس کو اشتعال کیسے دلوانا ہے, کیسے اس اشتعال کے تناظر میں ہونے والے واقعات کی فلمبندی کر کے پولیس کو نتھ ڈالنی ہے۔ اب تو یہ عالم ہو چکا کہ جب کسی تھانے کا چارج لیں تو سپاہی, محرر اور تھانیدار سب سے پہلی بریفنگ جو دیتے ہیں وہ یہ ہے کہ سر فلاں بندہ بڑا رپھڑی ہے, اس پہ ہاتھ ڈالنا ہے تو پکا ڈالنا ورنہ یہ معطل کروا دے گا, فلاں فلاں بندہ اس کی پشت پناہی کرتا ہے۔ دو ٹکے کی درخواست لکھنے کا ماہر جرائم پیشہ دندناتا پھرتا ہے اور ہمارے جوان کنی کترا کر گزر جاتے ہیں۔ بلکہ آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ اس رینک سے دوری کا نتیجہ ہم نے ٹی ایل پی کے کیس میں بھی دیکھ لیا۔ ٹی ایل پی کے غیر تربیت یافتہ ورکرز جو تعداد میں بھی کم تھے مگر وہ ہزاروں تربیت یافتہ محافظوں سے جیت گئے۔ وجہ کیا تھی؟ وجہ صاف ظاہر ہے کہ پے در پے سابقہ واقعات میں یہ بات ان کے ذہنوں میں بیٹھ گئی ہے کہ “بھائی جی جیل بھگتن نالوں چنگا اے کہ غیر حاضری دی انکوائری بھگت لوؤ”۔

ہمارے سپاہی کو قطعاٌ کوئی امید نہیں ہوتی کہ کسی بھی مشکل کی گھڑی میں محکمہ ان کا ساتھ دے گا۔ اس کے ذاتی مسائل میں بھی ہم اسے محض اس لئیے قصور وار گردانتے ہیں کہ اس نے یونیفارم پہنا ہوا ہے۔ حتٰی کہ سرکاری ڈیوٹی کے دوران سرزد ہونے والے افعال کے حل کے لئیے بھی اسے ذاتی اثر رسوخ استعمال کرنا پڑتا ہے پھر ہوتا کیا ہے اس رویہ سے تنگ آ کر وہ اپنے ذاتی اور محکمانہ امور کے لئیے جرائم پیشہ افراد کی جھولی میں سر رکھ دیتا ہے۔ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو وہ ماں کو کیوں فوقیت دیتا ہے ؟ وہ اس لئیے دیتا کہ ماں اس کی ضرورت پوری کر رہی ہوتی ہے۔ مگر جونہی بچہ ہوش سنبھالتا ہے تو پھر وہ باپ کے زیادہ قریب ہوتا ہے کیونکہ باپ اسے باہر لے کے جاتا ہے, اس کے لئیے کھلونے لاتا ہے اس کے لئیے کھانے پینے کی چیزیں لاتا ہے۔ بچہ اسی کے زیادہ قریب ہوتا ہے جو زیادہ پیار کرتا ہے۔ یہی کیفیت ہماری فورس کی بھی ہے۔ ہم نے ان کو اس قدر اپنے سے دور کر دیا ہے کہ اس کا محکمہ سے اعتبار ختم ہو گیا۔ وہ کسی بھی صورت میں محکمہ کے ساتھ کھڑا نہیں ہوتا بلکہ اس کے لئیے خدمات سر انجام دیتا ہے جو اس کے مشکل وقت میں کام آتا ہے۔ اور مشکل وقت میں جرائم پیشہ دو چار دس ہزار لگا کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئیے اس سپاہی کی وفادریاں خرید لیتا ہے۔ اب سپاہی یہ کہتا ہے کہ ایس ایچ او/ افسران تو آتے جاتے رہتے ہیں۔ ہم ان کےلئیے اپنے تعلقات کیوں خراب کریں۔ اس کے ہم خود ذمہ دار ہیں۔ ہم نے اپنے رویوں سے محکمہ کے 90 فیصد انسانی وسائل کو ضائع کیا ہوا ہے۔ جب ہم اس کی جائز بات بھی نہیں سنیں گے تو وہ جرائم پیشہ کے پاس ہی جاۓ گا اور اسے کہے گا کہ میرے افسر نوں سفارش کرواؤ کہ میری سپیشل رپورٹ نہ بناۓ, میری ڈیوٹی اوتھے لاوے۔ میرا تبادلہ اوتھے کر دیوے, مینوں چھٹیاں دے دیوے۔ جب ان جائز مسائل کے حل کے لئیے بھی اسے سفارش کروانی پڑتی ہے تو پھر وفاداریاں بھی اسی کے ساتھ ہوتی ہیں جو سفارش ڈھونڈ کر دیتا ہے۔ بلکہ وفاداری سے اگلی منزل وہ اندر ہی اندر افسران سے نفرت بھی کرتا ہے۔ وہ وقتی طور پر کچھ نہ بھی کر سکے تو موقعہ آنے پر بیچ منجدھار چھوڑ کر ادھر ادھر ہو جاتا ہے۔

جرائم پیشہ لوگوں سے بات چلتی چلتی شرفاء تک پہنچی, شرفاء سے علماء تک اور اب تو گھومتی گھماتی پارلیمینٹیرئین تک آن پہنچی۔ کس ڈھٹائی سے قانون بنانے والوں نے کل قانوں نافذ کرنے والوں پر تشدد کیا اور ڈھیٹ پن کی انتہا اس وقت ہوئی جب انہی کے پاس مرہم پٹی کروانے کے لئیے تھانہ پہنچے۔ حفاظت کے لئیے پولیس, پروٹوکول کے لئیے پولیس, مرہم پٹی کے لئیے پولیس, معاشرہ میں ناک اونچا کرنے کے لئیے پولیس, سیاست بچانے کے لئیے پولیس, اور معاشرہ پہ اپنی طاقت کی دھاک بٹھانے کے لئیے بھی پولیس۔ بلکہ معاشرہ کو اپنا اثر رسوخ دکھانے کے لئیے پرائیویٹ آدمیوں پر پرچہ اور پولیس کے ساتھ مزاحمت اور معطلی عظمت کی علامت بن چکے ہیں۔ کانسٹیبل کے ساتھ مزاحمت ہوئی ہم نے سمجھوتہ کیا, اے ایس آئی اور سب انسپکٹر کے ساتھ ہوئی ہم نے درگزر کیا, ایس ایچ او کے ساتھ ہوئی ہم نے ایشو ختم کیا, ڈی ایس پی کے ساتھ ہوئی ہم نے معاف کیا۔ اب بات بڑھتے بڑھتے ایس پی اور ایس ایس پی رینک تک چلی گئی مگر ہم سمجھوتہ کر رہے ہیں۔ کیا پولیس کا کوئی ذاتی ایجنڈا ہوتا ہے؟ ہم سوچ ہی نہیں رہے یہ محض پولیس مزاحمت نہیں ہے بلکہ یہ قانون نافذ کرنے میں رکاوٹ ہے, یہ قانون کی عملداری کا مزاق ہے, یہ سمجھوتہ نہیں بلکہ قانون کو موم کی ناک بنانے اور ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔

یہ اوپر تلے پے در پے واقعات آنے والے وقت کی طرف نشاندہی کر رہے ہیں مگر ہم ہیں کہ سبق ہی حاصل نہیں کر رہے۔ ابھی بھی وقت ہے اس رینک کو اس کی جائز چیثیت سے نوازیں اس کا پرٹوکول باقی تمام رینک سے زیادہ کریں, اس کی جائز ضروریات کے لئیے اس کے ساتھ کھڑے ہوں, اس کی شادی بیاہ غمی خوشی میں شرکت کریں, اسے معاشرے میں عزت دار فرد کے طور پر متعارف کروائیں, اس میں اتنا اعتماد پیدا کریں کہ اسے محکمانہ ضروریات کے لئیے سفارش نہ ڈھونڈنی پڑے۔ اسے ذاتی مسائل کے لئیے بھی ادھر ادھر نہ دیکھنا پڑے۔ دوسری بات سرکاری امور کی انجام دہی کے دوران فورس سے سرزد ہونے والے مسائل کا حل سرکاری طور پر ہو نہ کہ ذاتی طور پر۔ تیسری بات پولیس مزاحمت کو سمجھوتہ, صبر اور پرفیشنل ازم کی چھتری مہیا نہ کریں۔ اسے ناقابل ضمانت جرم بنوائیں, ہر صورت بنوائیں۔ جس کی کم از کم سزا 10 سال ہو۔ پولیس اگر یونیفارم میں ہے اور اسے قانون نافز کرنے کے دوران جو مزاحمت درپیش ہوتی ہے پہلے اس کا مداوا کیا جاۓ اور اگر پولیس غلط ہو تو اس کی بھی سزا۔ فوج میں یہی نظام رائج ہے۔ وہ اپنے سپاہی کو کسی صورت بے عزت نہیں ہونے دیتے۔ اگر وہ غلط بھی ہو تو خود اس کا احتساب کرتے ہیں اور دوبارا وہ فوج میں آنے کے قابل نہیں رہتا۔ اگر ہم نے آج یہ نہ کیا تو آنے والے وقتوں میں جرائم پیشہ ہجوم کے ساتھ ساتھ یہ فورس بھی اپنی خواہشات کو پایہ تکمیل تک پہنچاۓ گی اور معاشرہ کے جرائم پیشہ ایک ناسور کی حیثیت اختیار کر جائیں گے۔ جس میں جرائم پیشہ لوگ کچہریاں لگا کر خود ہی فرد جرم لگائیں گے اور خود ہی انصاف کریں گے اور پولیس کی حیثیت ایک سیکورٹی گارڈ سے زیادہ نہ ہو گی جس میں یہی ریڑھ کی ھڈی دور کھڑی بغلیں بجا رہی ہو گی۔

حسین فاروق

Categorized in: