میں 2007 میں اقبال ٹاؤن تھانہ میں TASI تعینات تھا۔ ایک تین سال کا بچہ اغوا ہو گیا۔ چند دنوں بعد بچہ بازیاب ہو گیا اور وہ جس ملزم سے بازیاب ہوا وہ اس کا رشتہ دار تھا۔ 19/20 سال کا نوجوان سول ایوایشن کی تعلیم حاصل کر رہا تھا اور ہمراہی ملزمان بھی اسی کے دوست تھے۔ دوران تفتیش میں نے پوچھا کہ تم نے ایسا کیوں کیا؟ اس نے چند گھریلو مسائل بتاۓ کہ کسطرح رشتہ داروں نے جائیداد کی خاطر یہ ظلم کئیے تو میں نے ان سے انتقام لینے کی خاطر اغواء کیا اور میرا مقصد محض ان کو اذیت دینا تھا۔ اچھا تو یہ بتاؤ کہ تمہارے ساتھ تو کوئی تجربہ کار ملزم بھی نہیں سب کے سب طالب علم ہیں, تمہیں یہ اغواء کا طریقہ کس نے بتایا تو اس نے ایک دو انگریزی موویز کے نام بتاۓ جن میں مجرم کیسے قانون کو چکمہ دیتے ہیں کو دکھایا گیا تھا۔ خیر ملزم اور اس کے ساتھی چالان ہو کر جیل چلے گئے۔ 7/8 ماہ بعد دوران ڈکیتی تین ڈاکو موقع سے گرفتار ہوۓ اور دو ڈاکو پولیس مقابلہ کرتے کرتے جان کی بازی ہار گئے۔ جب میں نے میڈیا میں تصاویر دیکھیں تو ان میں سے ایک وہی نوجوان تھا جس نے کچھ عرصہ قبل گھریلو جھگڑے کی وجہ سے جرم کیا اور باقی اس کے نئے ساتھی تھے جو جیل میں واقف کار بنے۔

2007 میں ہی تھانہ اقبال ٹاؤن کی حدود میں ایک اکیلا لڑکا ہنڈا سی ڈی 70 پہ عورتوں کے ساتھ زیور اتروانے کی واردات کرتا تھا۔ بعد ازاں کسی جگہ گرفتار ہو گیا۔ میں تفتیش کرنے کے لئیے گیا تو وہ لڑکا جانا پہچانا معلوم ہوا۔ وہ گورنمنٹ کالج لاہو میں میرا سیشن فیلو تھا۔ سارا خاندان انگلینڈ مقیم تھا۔ مجھے اسے اس حالت میں دیکھ کر بہت افسوس ہوا۔ اس کی کہانی سنی تو اس کے تعلقات فلمی صنعت کی اس وقت کی ٹاپ خواتین سے استوار تھے۔ ضروریات پوری کرنے کے لئیے وارداتوں کا سلسلہ شروع کیا اور اس دلدل میں دھنستا چلا گیا۔ میں نے پھر وہی سوال کیا کہ کیسے اس دنیا میں قدم رکھا تو اس نے بھی دو تین انڈین فلموں کے نام گنواۓ, نانا پاٹیکر اور بمبئی کی دنیا کو اپنا آئیڈیل بتایا۔ چونکہ اکیلا واردات کرتا تھا اس لئیے اکیلا ہی چالان ہو گیا۔ مگر کچھ ہی عرصہ بعد رہا ہو کر واپس آیا۔ سٹریٹ کرائم سے ہاؤس رابری کرنے لگ پڑا۔ تھوڑے ہی عرصہ بعد دوران واردات ہی گھر کا مالک صدمہ سے مر گیا اور خود بھی اپنے ہمراہی ساتھیوں کے ہمراہ اسی واردات کے دوران ہی راہی عدم ملک ہوا۔ یہ دونوں کیس ان لاکھوں مقدمات کا آئینہ دار ہیں جن میں میڈیا نے ذہن سازی کی اور جیلیں درسگاہ کا درجہ اختیار کرتے ہوۓ اچھے بھلے سیدھے راستے پر چلتے نوجوانوں کو دلدل میں دھکیل کر منطقی انجام تک پہنچا دیا۔

یہ وہ زمانہ تھا جب سوشل میڈیا ابھی کونپلیں نکال رہا تھا۔ لوگوں کی ایک قلیل تعداد کے پاس گھروں میں کمپیوٹر تھے اور وہ بھی پینٹئیم 3/4۔ لیپ ٹاپ معاشرتی حیثیت کی علامت تھا اور خال خال لوگوں کے پاس نظر آتا۔ لوگ اپنی جائز اور ناجائز ضروریات کے لئیے انٹرنیٹ کیفے کا رخ کرتے تھے اور 25/30 روپیہ گھنٹہ اداء کرتے۔ پھر 2010 کی دھائی آئی اور سب کچھ یکسر تبدیل ہو گیا۔ کمپیوٹر کی جگہ لیپ ٹاپ نے لے لی۔ لیپ ٹاپ کو سمارٹ فون نے نگل لیا۔ انٹرنیٹ کی قیمتیں ڈیٹا بنڈل تاخت و تاراج کرتا ہوا مارکیٹ میں متعارف ہوا۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے جہاں مثبت کاموں میں اضافہ ہوا وہیں اس سے کئی گنا زیادہ منفی کاموں میں رجحان بڑھا۔ اور اب سمارٹ فون یوزرز کی کیفیت یہ ہے کہ لائیک اور کمنٹس ہمارے زندگیوں کا مقصد بن گیا ہے۔ دوستی, دشمنی ناراضگی, خوشی, غمی کا تعین انہی لائکس, کمنٹس اور ایموجی سے نتھی ہو چکا ہے۔ فیملی ممبرز اور دوست احباب جسمانی طور پر بھلے اکٹھے بیٹھے ہوں مگر ذہنی طور پر تیسری اور تخیلاتی دنیا کے سفر پر گامزن ہوتے ہیں۔ ہاتھوں اور آنکھوں کو سمارٹ فون ایسا بھلا معلوم ہوتا ہے کہ جس کے سامنے ماں باپ بہن بھائی حتی کہ اولاد بھی ہیچ معلوم ہوتی ہے۔ بلکہ یوں کہیں کہ نشہ سے زیادہ بری یہ لت ہے تو کوئی مبالغہ نہیں۔ اپنے زہن میں آنے والے سوالات کا ابھی آپ ایک لفظ ہی ٹائپ کرتے ہیں تو جوابات کی ایک وسیع و عریض دنیا سے واسطہ پڑتا ہے جس سے باہر نکلنا انسان کے بس میں نہیں رہتا۔ ابھی کل ہی کی بات ہے میں کسی کام کےبسلسلہ میں مصروف تھا۔ اسی دوران میری ساڑھے تین سال کی بیٹی نے میرا موبائل اٹھایا اور یو ٹیوب پر بچوں کی گیمز دیکھنا شروع کر دی۔ تھوڑی دیر بعد مجھے احساس ہوا تو میں ششدر رہ گیا۔ میرے موبائل پر تو سرچ بار یا میری ٹائم لائن پر تو کوئی ایسی گیم نہ تھی تو پھر اس نے کیسے نکال لی۔ میں نے پوچھا تو اس نے نیا پروگرام نکال کر دکھا دیا۔ جب میں نے سرچ بار کو چیک کیا تو اس میں بے ترتیب انگریزی حروف درج تھے۔ میں نے تجربے کے طور پر مزید بے ترتیب حروف درج کئیے تو بچوں کے پروگرامز کھلنا شروع ہوگۓ۔ یہ میرے لئیے ایک نئی چیز تھی کہ سوفٹ وئیر کمپنیز نے ایسی پروگرامنگ کر دی ہے کہ جو لفظ سمجھ نہ آے تو سوفٹ وئیر خودکار نظام کے تحت سمجھ جاتا ہے کہ استعمال کنندہ بچہ ہے لہزا بچوں کے پروگرام کھول کر سامنے رکھ دیتا ہے اور بچے اپنی مرضی کی کہانی, کارٹون یا جو بھی دیکھنا چاہیں دیکھ سکتے ہیں ۔

اسی سوشل میڈیا کی بدولت ہم اس قدر مفلوج ہو چکے ہیں کہ اذہان اور اجسام ہمارے اپنے اختیار میں نہیں رہے۔ پچھلے سال 19/20 سال کے نوجوان نے نواں کوٹ کے علاقہ میں شارع عام پر فائرنگ کر کے چار معصوم افراد کا بغیر کسی وجہ عناد کے ناحق قتل کر دیا اور کوئی پشیمانی بھی نہیں ہوئی۔ دوران تفتیش موصوف نے کہا کہ میں نے کون سا برا کام کیا ہے۔ وجہ محض PUBG گیم تھی۔ چند ماہ قبل اسلام آباد میں ایک لڑکے نے لڑکی کو بہیمانہ انداز میں قتل کر دیا جو کہ کافی عرصہ سے بغیر کسی اخلاقی جواز کے اکٹھے زندگی بسر کر رہے تھے۔ دو ماہ قبل ایک میڈیکل کے سٹونڈنٹ نے کاہنہ کے علاقہ میں اپنی ماں بھائی اور بہنوں کو ابدی نیند سلا دیا۔ وہی ماں جس نے اس کے لئیے روس کی یونیورسٹی میں داخلہ لے کر دیا اور تقریباً 20 لاکھ روپیہ فیس اداء کر چکی تھی۔ کٌھرا پھر PUBG کے حصے آیا۔ اخلاقی باختگی کا یہ عالم ہو چکا کہ ذہن سازی کر کر کے ماں باپ کو بھی بچوں کی چیزیں بری نہیں لگتیں۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ آزادی اظہار کے نام پر ہر غیر اخلاقی چیز کی نہ صرف اجازت دے دی گئی بلکہ والدین ہی کی طرف سے تھانہ کچہری غرض ہر فورم پر اس کا دفاع کیا جاتا ہے۔ منشیات کی اعلٰی سے اعلٰی قسم اچھے سے اچھے تعلیمی اداروں کے اندر, باہر اور ارد گرد سے ملتی ہے۔ روشن خیال اعتدال پسندی کے نام پر تعلیمی اداروں کے اندر ایسے اخلاق باختہ پروگرام متعارف کرواۓ گئے کہ کلاس روم اور استاد کے دفتر میں فرق آ گیا۔ یہاں تک کہ رشتوں کا تقدس تک ناپید ہوتا جا رہا ہے۔ نت نئے ایسے کیس سامنے آتے ہیں کہ جن کو سن کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ایسی ایسی ایپس آ گئی ہیں کہ جن کو ٹریک کرنا مشکل ترین امر ہے۔ ہر رنگ, نسل, عمر, جنس اور معاشرتی حیثیت کے مطابق ہر چیز, ہر وقت اور ہر جگہ دستیاب ہے۔ سلسلہ یہیں پر نہیں رکا۔ آج کے موجودہ دور میں سب سے آسان ذریعہ معاش سوشل میڈیا کو بنا کر نوجوان نسل کی آنکھیں اس قدر خیرہ کر دی گئیں کہ اٹھتے بیٹھتے کھاتے پیتے چلتے پھرتے یہاں تک کہ بیماری اور موت بھی کمائی کا ذریعہ بن چکے ہیں۔

چوپال سے سینما, سینما سے ٹی وی, ٹی وی سے وی سی آر, وی سی آر سے کمپیوٹر, کمپیوٹر سے لیپ ٹاپ اور لیپ ٹاپ سے سمارٹ فون کے سفر نے بڑے غیر محسوس انداز سے نہ صرف انسان کو انسان سے دور کر دیا بلکہ اخلاقیات کا جنازہ اس طور سے نکالا کہ پتہ ہی نہ چلا کہ کب ہم, آپ سے تم, تم سے تو اور تو سے یار کی منزل طے کر گئے۔ یہ ایک ایسا موضوع ہے جس کے اثرات کو اگر قلمبند کیا جاۓ تو اب تک کے موضوعات میں سے سب سے زیادہ والیم مرتب کئیے جا سکیں۔ اگر آج ہم نے اور ہماری حکومت نے اس ناسور پر قابو نہ پایا تو ہماری آنے والی نسل اس قدر ذہنی طور پر مفلوج ہو گی کہ اپنے کمروں میں بند بیک وقت آئین سٹائن, نیوٹن, ارسطو , افلاطوں, نپولین, واشنگٹن, گاندھی اور قائد جیسی شخصیات کو شکست دیتی نظر آئیں گی اور جب ان کا حقیقی دنیا سے واسطہ پڑے گا تو ممکن ہے اقبال کی کشت ویراں بھی کشت ویراں بی نہ رہے اور ذرا سی تند و تیز ہوا کے جھونکوں پر نوحہ خوانی کرتی نظر آۓ۔

حسین فاروق