تعلقات کو بات چیت ، وعدوں ، شرائط و ضوابط کے ساتھ برقرار رکھا جاسکتا ہے لیکن محبت کو نہیں۔ محبت کی نہ تو کوئی زبان ہوتی ہے اور نہ ہی یہ اپنے وجود کو ثابت کرنے کے لئے کسی لفظ کی محتاج۔ یہ تو کرنیں ہیں جو بغیر کسی وجہ , بغیر کسی مفاد اور سودوزیاں کے مقاصد سے بالا روح سے نکلتیں ہیں اور محبوب کی روح میں بسیرا کر جاتی ہیں۔ جسم روح کا ترجمان بن جاتا ہے۔ محبت آندھی, بہری اور گونگی ہوتی ہے۔ ذہن کی دشمن ہوتی ہے۔ محبوب اور محب دونوں ہی عقل سے عاری اور دنیا و مافیا سے بے نیاز زندگی کا کٹھن سفر طے کرتے ہیں۔ جب محبت میں حساب کتاب کا دخل ہو جاۓ, محبت دیکھنا, سننا, بولنا شروع کر دے اور یہ مکالمہ کی محتاج ہوجائے تو یہ نفرت کے مترادف ہے۔

جس سے محبت کی جاۓ تو نفرت بھی اسی شدت سے ہوتی ہے یا یوں کہیئے کہ نفرت بھی محبت ہی کا پیمانہ ہے۔ نفرت محبت ہی کی اگلی منزل ہے۔ نفرت کے شدت سے ہم محسوس کر سکتے ہیں کہ محبت حدود و قیود سے بالا تھی۔راہ چلتے لوگوں سے نفرت بھی نہیں ہو سکتی۔ اسے محض تعلقات کو برقرار رکھنے کے لئے کم سے کم سطح پر نہیں لایا جاسکتا۔ یہ یا تو محبت ہے یا نفرت ، کوئی درمیانی راستہ نہیں۔

اور اسکا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ یہ دوبارا پھر سے ممکن ہو جاتی ہے اگر محب یا محبوب مکالمہ نہ کریں, زبان, آنکھ, کان, بند کر لیں۔ بات چیت کی بجاۓ انکے عمل سے احساس ہو کہ وہ اپنے کئے پہ نادم اور غلطی پہ پشیمان ہیں۔ وہ وجہ دور کر لیں جس وجہ سے محبت کی ناؤ ڈوبی تھی تو یہ واحد ایسا رشتہ جس میں گرہ آنے کے باوجود گرہ اپنا وجود کھو دیتی ہے۔ کانچ میں آنے والی دراڑیں تک نظر نہیں آتیں۔ پھر محبت اس پانی کی مانند جو زندگی کی بقاء کا لازمی جزو مگر عاجزی ایسی کہ جس کا اپنا نہ کوئی وجود اور نہ ہی رنگ۔ جس رنگ میں ڈالو وہی رنگ اور جس سانچے میں ڈھالو وہی شکل۔ مگر جب بپھرنے پہ آۓ تو رستہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کو تہس نہس کر دے۔

حسین فاروق

Categorized in: